Beneficiary Of A Provident Fund

Oct 20, 2025 | Employment / Commission

QUESTION:

I have a Retirement Annuity Fund which has already matured, but I have chosen not to cash it in until I turn 65 years old. According to the South African Pension Funds Act, I am unable to transfer the fund onto my wife’s name, however, I can make her the sole beneficiary. In the event of my passing, will this payout to my wife form part of my estate, or will my wife have sole ownership of it?

ANSWER:

A mandatory provident fund when paid out, is considered as a gift from the company to the beneficiary/ies stipulated by the employee. It is not necessary that one’s Shari’ee heirs are stipulated as beneficiaries of the fund, nor is it necessary that the funds be distributed according to the Shari’ee law of succession.

If an employee, for example, stipulated his wife as the sole beneficiary of the funds, then she will be fully entitled to the said funds. Furthermore, the husband should gift the fund to his wife in his lifetime.

In the case of a voluntary pension or provident fund, the total funds will form part of the deceased’s estate and will have to be distributed in accordance to the Shari’ee law of succession, even though the listed beneficiaries of the fund and their stipulated portions may not be in accordance to the Shari’ee law of succession. It will be the duty and responsibility of the executor to rectify the matter (if it is not in accordance to Shariah) by ensuring that funds are distributed in accordance to the Shari’ee law of succession.

This is obviously in a case where a voluntary provident fund is fully Shariah compliant. (We are not aware of any voluntary provident fund that is Shariah compliant.)

In the case of a provident fund not being fully Shariah compliant, the total amount contributed in the form of monthly premiums will form part of the deceased’s estate. The remainder of the funds (over and above one’s contributions) will have to be disposed of in charity (to poor Muslims that are eligible for Zakaat or poor non-Muslims) without any intention of reward.

جدید معاملات کے شرعی احکام میں ہے:

حکومت سرکاری ملازمین کی تنخواہ سے ہر ماہ رقم جبر وضع کرتی ہے جس کو جی پی فنڈ کہا جاتا ہے ، اختتام ملازمت ( ریٹائر منٹ ) پر حکومت یہ ساری جمع شدہ رقم ملازم کو اور اس کے انتقال کی صورت میں اس کے ورثاء

کو ادا کر دیتی ہے ، اس میں سود کے نام سے ایک اضافی رقم بھی ملاتی ہے اب یہ اضافی رقم جو حکومت ادا کرتی ہے اس کا شرعاً کیا حکم ہے؟

 اس کا جواب یہ کہ یہ اضافی رقم شرعا سود نہیں ہے کیونکہ سود د و  آدمیوں کے درمیان بذریعہ عقد طے ہوتا ہے، جب کہ دونوں طرف سے مال ہو اور ان کا مملوک ہو، مسئلہ مذکورہ میں ملازم سے جور قم تنخواہ سے وضع کی جاتی ہے وہ ملازم کی ملک نہیں ہوتی ، اس لیے کہ ملازم کی تنخواہ کے ملک میں داخل ہونے کے لیے ضروری

ہے کہ وہ قبضہ میں ہو:

قال العلامة ابن نجيم: قوله بل بالتعجيل أو بشرطه أو بالاستيفاء أو بالتمكن أى لا يملك الأجرة إلا بواحد من هذه الأربعة. (البحر الرائق: ۳۰۰/۷)

چونکہ اس رقم پر ملازم یا اس کے وکیل نے قبضہ نہیں کیا، اس لیے ملازم اس رقم کا مالک نہیں ہوا، لہذ المازم کے تصرفات اس میں نافذ نہ ہوں گے، اب حکومت اصل رقم یا سود پر اضافی رقم یا سود کے نام پر اضافی رقم جو کچھ بھی ادا کر رہی ہے ، سب اجرت ہی کا حصہ ہے جو حکومت مؤجلا  اکھٹی ادا کر رہی ہے ، چنانچہ حضرت مفتی شفیع صاحب فرماتے ہیں: جبری پراویڈنٹ فنڈ پر جو سود کے نام سے جو رقم ملتی ہے وہ شرعاً سود نہیں بلکہ اجرت ( تنخواہ ) ہی کا ایک حصہ ہے۔ (جدید معاملات کے شرعی احکام :1/129 ، بحوالہ پراویڈنٹ فنڈ پر زکوۃ اور سود کا مسئلہ، ص4)

آپ کے مسائل میں ہے:

پراویڈنٹ فنڈ پر جوانانی رقم محمد کی طرف سے دی جاتی ہے اس کا لینا جائز ہے۔

((آپ کے مسائل اور ان کا حل : 6/212)

اختیاری پراویڈنٹ فنڈ کا حکم:

سوال: ایک شخص ایک کمپنی کا ملازم ہے اور اس کمپنی میں اس کی تنخواہ  دو ہزار  ریند ہے لیکن ہر ماہ اس میں سے دو سو ریند کٹتے ہیں، اور یہ کوئی اس کی مرضی سے ہے، پھر کمپنی اس کے ساتھ مزید ایک سو  ر یند ملاتی ہے، اور ملازمت ختم ہونے کے بعد پوری رقم ملتی ہے، کیا یہ رقم لینا جائز ہے یا نہیں؟

الجواب: بہت سارے علماء نے دونوں قسم کے پراویڈنٹ فنڈ کا ایک ہی حکم تحریرفرمایا ہے، البتہ اپنے اختیار سے وضع کرانے میں رہا کے ساتھ مشابہت پائی جاتی ہے اس وجہ سے اس سے اجتناب کرنا چاہئے، تا کہ سود کھانے کا ذریعہ نہ بن جائے۔

ملاحظہ ہو حضرت مفتی محمد شفیع صاحب فرماتے ہیں:

البتہ پراویڈنٹ فنڈ میں رقم اپنے اختیار سے کٹوائی جائے تو اس میں تشبہ بالر با بھی ہے اور ذریعہ سود  بنا لینے کا خطرہ بھی اس لیے اس سے اجتناب کیا جائے ۔

(فتاوی دار العلوم زکر یا 5/444)

ALLAH TA’ALA ALONE IN HIS INFINITE KNOWLEDGE KNOWS BEST!

ANSWERED BY:

Mufti Abdul Kader Fazlani

Date: 21 Rabi-ul-Aakhir 1447 / 14 October 2025

CHECKED AND APPROVED BY:

Mufti Yacoob Vally Saheb

 

Categories